Hymen
پردہ بکارت
پاکستان کے بعض علاقوں میں سہاگ رات میں محض بستر پر سفید چادر بچھائی جاتی ہے تا کہ عورت کی عصمت چیک کی جاسکے۔چنانچہ اگر پہلی رات بستر پر خون ہے تو عورت کا باعصمت سمجھا جاتا ہے ورنہ اسے فوراََ طلاق دے دی جاتی ہے۔

اکثر قبائلی علاقوں میں دوپہر کو شادی کر کے دولہن کو گھر لایا جاتا ہے اور ساتھ میں دولہن کی خالہ والدہ بڑی بہن پھوپھوں کوئی ضرور آتا ہے اور دولہا مہمانوں سے فارغ ہو کر دلہن کی عصمت چیک کرنے کے لیے کمرے میں جاتا ہے تو دولہن کے گھر والے دولہے کو بندوق،رسی،چاقوں اور دولہے کی والدہ سفید رمال دیتی ہے پھر وہ کمرے میں جا کے دولہن کی شلوار کا ایک پاؤں اتار کرصرف اپنا ذَکر فرج میں داخل کر کے نکال لیتا ہے اور اپنا ذَکر کو سفید رومال سے صاف کر لیتا ہے اور پھر رومال اپنی جیب میں رکھ کر باہر جاتا ہے باہر وہ رومال دولہے کی والدہ دولہے کی جیب سے نکال کے دیکھتی ہے۔اگر رومال پر عورت کے باعصمت ہونے کے نشان یعنی خون لگا ہو تو دولہا ں تین فائر کرتا ہے اور رات کو ولیمہ کی دعوت ہوتی ہے اور اگر بدقسمتی سے رومال صاف ہو تو عورت کو بدکردار سمجھا جاتا ہے اور دولہے کو بندوق،رسی،چاقوں اسی لیے دیا جاتا ہے کہ اگر عورت بدکردار ہویہ تو اپنی غیرت کے نام پر جس طرح چاہے بندوق سے گولی مار کے،رسی سے گلا گھونٹ کے یا چاقوں سے اُسے قتل کر دے۔اگر بدقسمتی سے رومال صاف نکل آئے تو دولہن کے گھر والوں کو بُلا لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ معلوم کریں کے یہ عورت کا کردار کس مرد کے ساتھ خراب ہے اور اس مرد کو بھی سزا دی جائے۔یہ ایک جاہلانہ راوج ہے۔

پردہ بکارت کی موجودگی یا عدم موجودگی عورت کی عصمت کی ہر گز دلیل نہیں۔میرے ایک نوجوان کلائنٹ نے میری ایک ورکشاپ”شادی کی بھرپور خواہش جنسی مسائل اور حل” میں شرکت کی۔پھر اس کی شادی ہو گئی۔شادی کے اگلے دن اس کا فون آیا۔وہ بہت پریشان تھا اور بیوی کو طلاق دینے کا سوچ رہا تھا۔پریشان اس لیے تھا کہ اس نے کامیاب مباشرت کی مگر اس رات اس کی بیوی کو بستر پر خون نہ آیا۔

ہمارے ہاں پردہ بکارت کے سلسلے میں بھی غلط معلومات کی بھرمار ہے۔اور اسے کنوارہ پن اور عصمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔یہ پردہ فرج کے سوراخ میں ذرا اندر کی طرف موجود ہوتا ہے۔مگر یہ مکمل طور پر فرج کو بند نہیں کرتا۔اس میں ایک دو سوراخ ہوتے ہیں تا کہ ماہواری کا خون خارج ہو سکے یہ عموماََ چاند کی شکل کا ہوتا ہے تاہم یہ سائز،شکل اور موٹائی کے لحاظ سے مختلف عورتوں کا مختلف ہوتا ہے۔
اکثر عورتوں کا یہ پردہ نرم و نازک ہوتا ہے اور پہلی مباشرت میں آسانی سے پھٹ جاتا ہے۔بعض عورتوں کا یہ غیر معمولی طور پر سخت گوشت کا بنا ہوتا ہے جو مباشرت میں رُکاوٹ اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ایسی صورت میں معمولی آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض خواتین کا یہ پردہ بہت لچکدار ہوتا ہے جوکہ مباشرت سے نہیں پھٹتاکیونکہ یہ اند کو دھکیلا جا سکتا ہے۔ایسی صورت میں عورت حاملہ ہو جاتی ہے اور بعض صورتوں میں توبچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں پھٹتا۔پیشہ ور عورتیں اس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں اور بار بار”نتھ کھلوائی”وصول کرتی ہیں۔

پردہ بکارت کی موجودگی یا عدم موجودگی کسی بھی طرح عورت کے باعصمت یا باکرہ ہونے کاثبوت نہیں۔بہت سی بچیوں کا یہ پردہ کسی حادثے یا اچھل کھود کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔بعض کا خودلذتی کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔اسی طرح ماہواری کے دوران پیڈوغیرہ کے استعمال یا صفائی سے بھی پھٹ سکتا ہے۔بعض خواتین کا یہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔اور کچھ خواتین کا یہ خون کے اخراج اور تکلیف کے بغیر پھٹ جاتا ہے۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ تر خواتین کا پردہ بکارت پیدائش کے بعد فطری طور پر آہستہ آہستہ غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔لہذٰ اس پردے کی عدم موجودگی ہر گز اس بات کا ثبوت نہیں کہ لڑکی بدکار ہے۔
(مبین:ذاکر:Bechtel:Hyde)